10 ستمبر، 2025، 4:47 PM

مہر نيوز کی خصوصی رپورٹ؛

امریکہ اور اسرائیل کا نیا حربہ، مذاکرات کی آڑ میں ٹارگٹ کلنگ

امریکہ اور اسرائیل کا نیا حربہ، مذاکرات کی آڑ میں ٹارگٹ کلنگ

امریکہ اور صہیونی حکومت نے حالیہ برسوں میں متعدد مرتبہ مذاکرات کے بہانے اہداف پر حملے کرکے سفارتی عمل کو سبوتاژ کیا ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حالیہ سالوں میں مشرق وسطی میں ایک حکمت عملی کو بار بار دہرایا ہے، جس میں مذاکرات یا ڈپلومیسی کی آڑ میں ٹارگٹ کلنگ اور حملے کیے گئے ہیں۔ اس حکمت عملی کے تحت اسرائیل سفارتی عمل کو دشمن کے تعاقب اور حملے کے لیے استعمال کرتا ہے، جس میں شاباک اور موساد مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اس حکمت عملی کی حمایت کرتے ہیں۔

مذاکرات کو ٹارگٹ کلنگ کا ذریعہ بنانے کی متعدد مثالیں ہیں۔

1. بیروت میں فواد شکر پر حملہ: امریکہ کے نمائندے ہوکشتاین نے بیروت پر حملے نہ کرنے کا وعدہ کیا، مگر 30 جولائی 2024 کو جنوبی ضاحیہ میں فواد شکر کو شہید کر دیا گیا۔ شکر حزب اللہ کے سینئر کمانڈر تھے۔ اسرائیل نے انہیں مجدل شمس پر حملے کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔

2. شہید حسن نصراللہ پر حملہ: حزب اللہ کو 21 روزہ جنگ بندی کی پیشکش کی گئی۔ حسن نصراللہ نے اسے قبول کیا، مگر فوری طور پر 27 ستمبر 2024 کو بیروت میں ہوائی حملے میں ان کو شہید کر دیا گیا۔ لبنان کے وزیر خارجہ نے تصدیق کی کہ نصراللہ چند دن پہلے جنگ بندی پر رضا مند ہوچکے تھے۔ اسرائیل نے مذاکرات کے بہانے دشمن کی مخفی گاہ کا کھوج لگایا۔

3. ایڈن الیگزینڈر کی رہائی: امریکی شہری کی رہائی کے ذریعے حماس کے عسکری رہنما محمد سنوار کو ہدف بنایا گیا۔ اسرائیل نے یرغمالی کی رہائی سے حاصل شدہ معلومات کی بنیاد پر ہدف پر حملہ کیا۔

4. ایران کے جوہری پروگرام پر مذاکرات: ایران اور امریکہ کے درمیان کئی مراحل پر مشتمل بالواسطہ مذاکرات ہوئے، مگر بعد میں اسرائیل نے ایران کے جوہری مراکز پر حملہ کیا۔ جون 2025 میں اسرائیل نے ایران کے خلاف جارحانہ کارروائی شروع کی، جس کے بعد امریکہ نے بھی ایران کے جوہری مراکز پر حملے کیے۔

5. ٹرمپ کی حماس کو پیشکش: حماس کے سیاسی دفتر کے اراکین دوحہ میں جمع ہوئے تاکہ ٹرمپ کی طرف سے تجویز کردہ جنگ بندی پر بات چیت کریں۔ اس دوران اسرائیل نے ہوائی حملہ کیا اور خلیل الحیہ کو ہدف بنایا، جو حماس کے سینئر عہدیدار ہیں۔ ٹرمپ نے دو دن پہلے خبردار کیا اور کہا کہ اسرائیل نے جنگ بندی قبول کرلی ہے اور حماس کو بھی قبول کرنا چاہیے۔

مبصرین کے مطابق، اسرائیل مذاکرات کو ایک اسٹریٹجک جال کے طور پر استعمال کرتا ہے تاکہ دشمن کو غافل کیا جائے۔ اس حکمت عملی میں ٹرمپ مرکزی کردار ادا کرتے ہیں، جو آخری انتباہ جیسے شدید بیانات کے ذریعے حملے کے سگنل بھیجتے ہیں اور پس پردہ نتن یاہو کے ساتھ ہم آہنگی کرتے ہیں۔

مذاکرات کو ٹارگٹ کلنگ کا ذریعہ بنانے میں نتن یاہو اور ٹرمپ مکمل طور پر ہم آہنگ ہیں اور ٹرمپ اکثر بطور ثالث سامنے آتے ہیں تاکہ مخالفین پر دباؤ بڑھے اور کارروائی کے لیے راستہ تیار ہوجائے۔

صہیونی حکومت کی جارحانہ کاروائیوں کی روشنی میں مذاکرات اب ٹارگٹ کلنگ کا ذریعہ بن چکے ہیں۔ اسرائیل ڈپلومیسی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے اور یہ حکمت عملی پانچ بار دہرائی جاچکی ہے۔

امریکہ اور صہیونی حکومت کی اس حکمت عملی سے ملکوں کے درمیان موجود اعتماد کو شدید دھچکہ لگا ہے اور سفارتی عمل کو مشکوک بنارہا ہے۔

News ID 1935283

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha